سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حوالے سے تشکیل کردہ فل کورٹ کی کارروائی پہلی مرتبہ براہ راست نشر کی گئی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔
سماعت کے دوران نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو
درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی دلائل دینے آئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ رولز کو چھوڑیں، آئین کی بات کریں، کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔
انھوں نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت حکم امتناعی برقرار رکھتی ہے تو بطور چیف جسٹس انھیں ہی فائدہ ہوگا۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معزرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی، تاخیرکی یہ وجہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم فل کورٹ میٹنگ میں تھے، ہم نے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر کاروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے، نام بتائیں کس کس نے دلائل دینے ہیں۔
درخواست گزار کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے چیف جسٹس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بنیچ مل کر کام کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ہم نے فل کورٹ بنا دیا ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کیس پہلے سنا کچھ نے نہیں سنا، سوال تھا کیا انہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، پھر سوال تھا کے کیا سینیئر ججز ہی بینچ کا حصہ ہوں گے، ہمیں مناسب یہی لگا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔