فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دیدیا

مذکورہ درخواستوں کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز الاحسن نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا،عدالت نے سویلین کے ٹرائل کو کالعدم قرار دیا

عدالت عظمیٰ نے ملٹری ایکٹ کے سیکشن 2 (1) (ڈی) کی دونوں ذیلی شقوں کو آئین کے برخلاف قرار دیا جبکہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے اس پر اپنی رائے محفوظ رکھی

 عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر کسی شہری کا فوجی عدالت میں ٹرائل شروع ہوگیا ہے تو وہ بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے

9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں  گرفتار 102 افراد جن کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی تھی، سپریم کورٹ نے  ان کا ٹرائل عام فوجداری عدالتوں میں چلانےکا حکم دیا ہے

قبل ازیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کریمنل کورٹس کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے، اب ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے، فوجی عدالتوں کے فیصلے میں وجوہات بھی لکھی جائیں گی

ان کا کہنا تھا کہ  9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالت کی طرز پر ہوگا، فیصلے میں وجوہات دی جائیں گی شہادتیں ریکارڈ ہوں گی، آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کے تمام تقاضے پورے ہوں گے، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیلیں بھی کی جا سکیں گی

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو آگاہ کروں گا کہ 2015 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں کیوں بنائی تھیں، عدالت کو یہ بھی بتاؤں گا کہ اس وقت فوجی عدالتوں کیلئے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا 2015 کے ملزمان عام شہری تھے، غیرملکی یا دہشتگرد تھے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ملزمان میں ملکی و غیر ملکی دونوں ہی شامل تھے، سال 2015 میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشتگردوں کے سہولت کار بھی شامل تھے

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ دہشتگردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کے لیے نہیں؟ میں آپ کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمڈ فورسز سے ملزمان کا ڈائریکٹ تعلق ہو تو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں، ملزمان کا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی ٹو کے تحت ٹرائل کیا جائے گا

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آئین کے مطابق تو قانون میں آرمڈ فورسز سے تعلق ضروری ہے، آپ کی تشریح کو مان لیا تو آپ ہر ایک کو اس میں لے ائیں گے،ایسے میں بنیادی حقوق کا کیا ہو گا

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کہا کہ قانون واضح ہے پھر ملزمان کا تعلق کیسے جوڑیں گے؟ آئین بنیادی حقوق کو تحفظ دیتا ہے

بعد ازاں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا، عدالت نے کہا کہ  ممکن ہے مختصر فیصلہ سنا دیں

واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع ہونے سے متعلق سپریم کورٹ کو متفرق درخواست کے ذریعے آگاہ کیا تھا 

درخواست میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے 3 اگست کے حکمنامے کی روشنی میں عدالت کو ٹرائلز کے آغاز سے مطلع کیا جا رہا ہے، 9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں 102 افراد گرفتار کیے گئے، زیر حراست افراد کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرائل کیا جا رہا ہے اور جو فوجی عدالتوں میں ٹرائل میں قصوروار ثابت نہ ہوا وہ بری ہوجائے گا

دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو سناتے ہوئے مذکورہ حکم جاری کر دیا

Share

اپنا تبصرہ بھیجیں