افغان مہاجرین کی جبری ملک بدری کیخلاف درخواست دائر

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق( این سی ایچ آر) میں افغانی مہاجرین کی جبری ملک بدری کے خلاف درخواست دائر کر دی گئی

درخواست سول سوسائٹی کے نمائندوں سینیٹر مشتاق احمد ،سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، سابق سینیٹر افراسیاب خٹک،صبا گل خٹک،آمنہ مسعود جنجوعہ،عمران شفیق اور عمر اعجاز گیلانی  کی جانب سے دائر کی گئی ہے

درخواست میں وفاق بزریعہ نگران وزیراعظم ،سیکرٹری داخلہ، کوآرڈینیٹر ایپیکس کمیٹی ،ڈی جی امیگریشن اینڈ پاسپورٹ،وزارت خارجہ بذریعہ سیکرٹری،چیف کمشنر برائے افغان مہاجرین،نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی،یو این ہائی کمشنر برائے مہاجرین کو فریق بنایا گیا ہے

درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار پاکستان کے شہری ہیں جو پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور تمام لوگوں کے  آئینی حقوق کے تحفظ پر یقین رکھتے ہیں۔  ان کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں، مختلف نسلوں اور مختلف مکاتب فکر سے ہے۔جو چیز انہیں متحد کرتی ہے وہ کمزور اور پسماندہ لوگوں کے حقوق کے لیے پختہ عزم ہے، جن کا پاکستان کے آئین اور قوانین میں وعدہ کیا گیا ہے

  درخواست گزار افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے انسانی حقوق کے ایک سنگین بحران کے باعث کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں، جواب دہندگان کی جانب سے مزکورہ فیصلہ نہ صرف غیر آئینی و غیر قانونی ہے بلکہ یہ فیصلہ نگراں حکومت کے مینڈیٹ کے اندر نہیں آتا، یہ جبری وطن واپسی کے مترادف ہے، جسے بین الاقوامی قانون تسلیم نہیں کرتا،یہ انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے جس پر عملدرآمد کیلئے اس کمیشن کو قانوناً پابند کیا گیا ہے

یہ فیصلہ کمزور افغان مہاجرین اور  سیاسی پناہ کے طالبوں  بشمول خواتین، بچوں، بوڑھوں، معذوری کا شکار  افراد کو متاثر کرے گا

درخواست میں معاملے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے ساتھ سہ فریقی معاہدے پر دستخط کئے ہوئے ہیں،معاہدے کے تحت پناہ گزینوں کو صرف رضاکارانہ بنیادوں پر واپس بھیجا جا سکتا ہے

  درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو پروف آف رجسٹریشن کارڈز اور افغان سٹیزن کارڈ جاری کیے ہیں۔  اس کے علاوہ، پاکستان نےیو این ایچ سی آر کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت پناہ کے متلاشیوں کی درخواستوں پر کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے 

درخواست میں اعلی عدلیہ کے فیصلوں کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں،ایک معاملہ ترکی کے اسکولوں کے اساتذہ کا تھا،عدالت نے ان کی ملک بدری اسوقت تک روکنے کا حکم دیا تھا جب تک یو این ایچ سی آر کی جانب سے اساتذہ کی پناہ کی درخواست کا فیصلہ نہیں کیا جاتا،دوسرا جسٹس بابر ستار کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں موجود مہاجرین کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو پاکستان کے شہریوں کو حاصل ہیں

 درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ جواب دہندگان کو افغان پناہ گزینوں کو جبری حراست میں لینے،جبری ملک بدری اور ہراساں کرنے سے روکا جائے  جن کی درخواستیں یو این ایچ سی آر کے سامنے زیرالتوا ہیں

یواین ایچ سی آر کو ہدایت کی جائے کہ غیر ملکیوں اور بالخصوص افغان پناہ گزینوں کی جانب سے دائر  کردہ سیاسی پناہ کی درخواستوں پر تیزی سے کارروائی کرتے ہوئے فیصلہ صادر کرے

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویریہ آغا کو بتایا کہ بہت سے پاکستانیوں کی افغان عورتوں سے شادی ہو چکی ہے،ان کی اتنی  نسلیں یہاں بڑی ہو چکی ہیں کہ انہیں الگ کر ہی نہیں سکتے،یہ بااکل اسی طرح ہے جب قیام پاکستان کے وقت 1947  میں لوگ ہجرت کر کے یہاں آئے تھے، تو انہیں انڈین تو نہیں کہتے پاکستانی کہتے ہیں،اسی طرح جب بحران پیدا ہوا اور افغانیوں کی کئی مرتبہ مائیگریشن ہوئی تو ان کو بھی افغانی نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ پاکستانی ہی کہلائیں گے

انہوں نے کہا کہ بہت سے لاپتہ افراد میں افغانی مسنگ پرسن بھی شامل ہیں،متعدد ایسے ہیں جن کی بیویاں پاکستانی ہیں،بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کے شوہر افغانی ہیں اور لاپتہ ہوئے ہیں،ان حالات میں یہ مناسب نہیں کہ نگران حکومت ایسا قدم اٹھائے جو ان کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے

چیئرپرسن ڈی ایچ آر نے بتایا کہ اب جو نوٹس جاری کیا گیا ہے کہ فوری یکم نومبر سے پہلے چلے جائیں،یہ عملی نہیں ہے ،دوسرا یہ کہ بہت کشیدگی بڑھ رہی ہے ،پولیس چھاپے مار رہی ہے،گھروں سے بےدخل کر رہی ہے،بہت سے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے،یہ اقدامات بہت خوفناک اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے،آئین پاکستان کے مطابق  کوئی بھی شخص جو پاکستان کی سرزمین پر موجود ہو اس کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی

Share

اپنا تبصرہ بھیجیں